وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید
کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل اور اکمل سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے انکے کوئی موحد و مومن ہی نہیں لہذا اس طبقہ کواورکوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے انکو امت مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آجائے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
معزز قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبرکیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر ؟؟؟
معزز قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبرکیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر ؟؟؟
کیا ہے تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام سے بھی بڑھ کرسمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کےاصحاب اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئین کرام کیا آپ امیجن کرسکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام موجود ہوں اور پھر انھی کے شاگرد یعنی تابعین کرام کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کردے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیئے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیئے اور سر دھنیے انکی توحید پرستی پر۔
اب اتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انـٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔
تو آئیے معزز قارئین کرام اس آیت سے انکے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادھایعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں انکا بیک وقت کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت مومن ومسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر لہذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہوگا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہوگا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنی دارد؟؟؟ یا تو وہ مسلم ہوگا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اسکا ایمان ہوگا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اسکے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔
خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مزکورہ بالا آیت کی طرف ۔۔۔
معزز قارئین کرام آپ سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں امہات التفاسیر میں سے کوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں کہ تقریبا سب مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین مکہ کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں اسی آیت کہ تحت رقم طراز ہیں کہ :
وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس: من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم: " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا.
مفھوم : آپ دیکھیئے معزز قارئین کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ انکا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے۔اور اسی طرح کا قول مجاہد ،عطا،عکرمہ ،شعبی،قتادہ ،ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے بھی ہے ۔
جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو
معزز قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے یعنی ان مشرکوں کو جو ایمان رکھنے والا کہا گیا تو وہ محض لغوی اعتبار سے ایمان والا کہا گیا ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سےکیونکہ وہ لوگ اللہ پاک کی خالقیت اور ربوبیت کا چونکہ اقرار کرتے تھے لہذا انکے اس اقرار کرنے کی باعث انکے اس اقرارپرصوری اعتبارسے لفظ ایمان کا اطلاق اللہ پاک نے کیا ہے لہذا وہ لوگ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا تو اقرار کرتے تھے مگراکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اسی لیے اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک
اللہ کی ذات پر دھرتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے ۔
جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم
طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو کوئی ایسا اعتقاد رکھے کہ جس سے شرک لازم آتا ہو یعنی اس سے لزوم کفر ثابت ہوتا ہو تو اس کلمہ گو کو اس کے اس اعتقاد کی لزومیت کفر سے آگاہ کیا جائے اگر پھر بھی وہ اس پر اڑا رہے اور اپنے اس کفر پر التزام برتے تو اس کا یہ کفرلزوم سے نکل التزام کفر کے معنی میں داخل ہوکر اس معین شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کردئے گا پھر اسے کافر یا مشرک یا پھر مرتد کہیں گے نہ کہ بیک وقت مسلمان بھی اور مشرک بھی اور یہ ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس سے ادنٰی سی عقل رکھنے والا انسان بھی واقف ہوگا چناچہ اسی بات کو مشھور ویب بیسڈ جریدے کے ممشھور سلفی رائٹر جناب حامد کمال الدین نے اپنی کتاب نواقض اسلام میں کچھ یون واضح کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
یہاں ”کلمہ گو“ والی غلط فہمی کا ازالہ ایک بار پھر ضروری ہے۔ نواقض اسلام کہتے ہی ان باتوں کو ہیں جو کسی شخص کو اسلام سے خارج کر دیں یعنی کلمہ گو کو کلمہ گو نہ رہنے دیں۔ نواقضِ اسلام ہیں ہی وہ باتیں جو آدمی کے کلمہ گو ہونے کو کالعدم کردیں۔ نواقض اسلام کسی کافر کو اسلام سے خارج کرنے والی باتوں کو نہیں کہا جاتا! بلکہ نواقض اسلام تو عین وہ باتیں ہیں جو کسی ”کلمہ گو“ کو کافر قرار دینے کیلئے علماءاور ائمہ نے بیان کی ہیں۔ پس یہ بات جان لینے کے بعد اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپ کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو طاغوت کی مسند پر دیکھیں یا کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے پائیں تو اسے ”بہرحال مسلمان“ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں، کیونکہ وہ آپ کے خیال میں کلمہ پڑھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔
جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔
یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔
کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔
حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔
اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر!
اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔
آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے جمہور یا پھر من حیث المجموع ،امت پر شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ نام نہاد توحید پرست آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان لکیر کے فقیروں کے فہم کے مطابق ایک تو اس آیت میں لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے جو اکثر مومن ہیں وہ لازما مشرک بھی ٹھرے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ ، اور یہی چیز ہم نے اوپر بھی واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک کو یا پھر تینوں کومشترکہ طور پر بھی اگر اس آیت کے شان نزول کا مصداق مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔ ۔
اعتراض:
جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)
ازالہ اعتراض : سورہ انعام کی اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایک مسلمان مسلم ہوتے ہوئے بھی شرک کی آمیزش سے خود کو آلود کرسکتا ہے اور ایسا کرچکنے کہ بعد بھی وہ مسلم ہی کہلواتا ہے درست نہیں کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا حقیقی و معروف معنی مراد لیا جو کہ کمی و ذیادتی پر دلالت کرتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی و بیشی نہ ہوئی ہوگی ؟؟؟ تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ کہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ کرام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔۔
اعتراض :
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے
“" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)
ازالہ اعتراض :
آپکی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں مفتی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب انے مضمون عقیدہ توحید اور امت توحید میں رقمطراز ہیں کہ ۔۔
امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔
(۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔
(بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)
(۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔
(مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ،مطبوعہ دارالمعرفۃ ،
مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب ،
ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵ ،
بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ،جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،
حلیہ الاولیا، جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی )
امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
(۳) حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں۔ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔
حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اے اللہ معاف کرے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا: شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔
حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کیلئے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا۔ کیا اس نے شرک کیا؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کیلئے اسے ختم کردیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو۔
(۴) حضرت جابر سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں۔
( البدایہ ، ابن کثیر جلد نمبر1،ص۶۶،مطبوعہ دارالمعرفۃ)
اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہوگی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا۔امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے۔
ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے۔دیکھیے
(۵) حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔
حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸،
سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹،
کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰)
امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے
اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے۔ ۔۔ والسلام
No comments:
Post a Comment